سدرک، میسک اور عبدنجو
سدرکؔ، میسکؔ اور عبد نجوؔ
دانی ایل کی کتاب میں ہم تین اشخاص سدرک ، میسک اور عبد نجو کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ یہ تینوں لوگ، دانی ایل کے ساتھ، بابل کے صوبہ کی کارپردازی کیلئے مقرر کئے گئے تھے(دانی ایل 2باب49آیت)۔ وہ خدا پرست یہودی تھے جنہیں خدا نے ” معرفت اور ہر طرح کی حکمت اور علم میں مہارت بخشی تھی“(دانی ایل 1باب17آیت) اور جنہیں وہ مزید کارپردازی دیناچاہتا تھا۔ ان کے عہدے کی وجہ سے، وہ شاید بہت سی ایسی چیزوں کا فائدہ لے سکتے تھے جو نہ صرف یہودیوں کو بلکہ اس دیس کے رہائشیوں کو بھی نصیب نہ تھے۔ وہ یقیناً برکات یافتہ لوگ تھے۔ تاہم، ایک روز ساری صورتِ حال بدل گئی۔ نبوکد نضر نے ، جو ان کا بادشاہ تھا، سونے کی ایک مورتی بنوائی اور ہر ایک سے اس کی پرستش کرنے کو کہا۔ سلطنت میں موجود ہر شخص کو اس کی پرستش کرنا تھی، اور اگر کوئی نافرمانی کرتا تو اسے آگ کی بھٹی میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لہٰذہ، سدرک، میسک اور عبد نجو کو اس کا سامنا کرنا پڑا: کیا انہوں نے اپنی زندگیاں، اپنے خاندان ، اپنے رتبے بچانے کی خاطر بادشاہ کے حکم کی فرمانبراری کی ہوگی یہ سوچتے ہوئے کہ وہ خدا سے بعد میں ” معافی“ مانگ لیں گے یا انہوں نے اس بت کو سجدہ نہ کرتے ہوئے خدا کے کلام کی فرمانبرداری کی ہوگی؟دانی ایل 3باب8تا 12آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے بعد والے نقطہ کو چنا۔ لہٰذہ، انہیں بادشاہ کے سامنے لایا گیا، گو کہ وہ ان سے ناراض تھا، لیکن اس نے انہیں ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا:اس نے ان سے کہا، ”پر اگر سجدہ نہ کر گے تو اسی وقت آگ کی جلتی بھٹی میں ڈالے جاﺅ گے اور کون سا معبود تم کو میرے ہاتھ سے چھڑائے گا؟“(دانی ایل 3 باب 15آیت)۔ تب سدرک، میسک اور عبد نجو نے جواب دیا:
دانی ایل3باب16تا18آیات:
”سدرک، میسک اور عبد نجو نے بادشاہ سے عرض کی کہ اے نبو کدنضر اس امر میں ہم تجھے جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ دیکھ ہمارا خدا جس کی ہم عبادت کرتے ہیں ہم کو آگ کی بھڑی سے چھڑانے کی قدرت رکھتا ہے اور اے بادشاہ وہی ہم کو تیرے ہاتھ سے چھڑائے گا ۔ اور نہیں تو اے بادشاہ تجھے یہ معلوم ہو کہ ہم تیرے معبودوں کی عبادت نہیں کریں گے اور اس سونے کی مورت کو جو تو نے نصب کی ہے سجدہ نہیں کریں گے۔ “
سدرک، میسک اور عبد نجو یہ عزم کر چکے تھے کہ وہ کسی بھی صورت اس مورت کو سجدہ نہیں کریں گے۔ گو کہ وہ جانتے تھے کہ خدا ان کو چھڑا سکتا تھا، انہوں نے یہ نہیں سچا تھا کہ ایسا ہوگا۔ انہوں نے خدا کی فرمانبرداری بے لوث کی،لیکن اگر خدا انہیں نہ بچاتا تو بھی وہ بادشاہ کی اس مورت کی پرستش نہ کرتے (اور نہیں تو اے بادشاہ تجھے یہ معلوم ہو کہ ہم تیرے معبودوں کی عبادت نہیں کریں گے اور اس سونے کی مورت کو جو تو نے نصب کی ہے سجدہ نہیں کریں گے۔ “)جیسا کہ دانی ایل 3باب28آیت کہتی ہے کہ:انہوں نے اپنے بدنوں کو خدا کی عبادت کیلئے نثار کر دیا تھا۔ ان کے جواب نے بادشاہ کو اور زیادہ غضبناک او ر بھٹی کو اور زیادہ شعلہ زن کر دیا۔ سدرک، میسک اور عبد نجو کو فوراً اس میں ڈال دیا گیا۔ تاہم، ایک غیر متوقع چیز نے بادشاہ اور اس کے خدمت گزاروں کو حیران کر دیا: فوراً آگ سے بھسم ہو جانے کی بجائے، یہ لوگ آگ میں چل پھر رہے تھے ، اکیلے نہیں بلکہ کسی کے ساتھ جس کی صور ت”اِلہٰ زادہ “ کی سی تھی (دانی ایل 3باب25آیت)!فورا! بادشاہ نے انہیں باہر نکالنے کا حکم دیا۔ اس کا جواب28تا30آیات میں درج ہے:
دانی ایل3باب28تا30آیت:
”پس نبوکدنضر نے پکار کر کہا سدرک، میسک اور عبد نجو کا خدا مبارک ہو جس نے اپنا فرشتہ بھیج کر اپنے بندوں کو رہائی بخشی جنہوں نے اس پر توکل کر کے بادشاہ کے حکم کو ٹال دیا اور اپنے بدنوں کو نثار کیا کہ اپنے خدا کے سوا کسی دوسرے معبود کی عبادت اور بندگی نہ کریں۔ اس لئے میں یہ فرمان جاری کرتا ہوں کہ جو قوم یا امت یا اہلِ زبان سدرک، میسک اور عبد نجو کے خدا کے حق میں کوئی نامناسب بات کہیں ان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے اور ان کے گھر مزبلہ ہو جائیں گے کیونکہ کوئی دوسرا معبود نہیں جو اس طرح رہائی دے سکے۔ پھر بادشاہ نے سدرک، میسک اور عبد نجو کو صوبہ بابل میں سرفراز کیا۔ “
بعض اوقات، اس قسم کے حوالہ جات میں ہم خدا کی برکات اور اس کی رہائی پر غور کرتے ہیں۔ اور ہاں ان پر ہماری توجہ ہونی چاہئے۔ تاہم، جس چیز پہ میں آج بات کرنا چاہتا ہوں وہ ان تینوں آدمیوں کی فرمانبرداری تھی، اور خاص طور پر یہ حقیقت کہ یہ بے لوث تھی۔ حقیقتاً یہ لوگ خدا کی فرمانبرداری کرتے اگر اس نے ان کو نہ صرف رہائی دی ہوتی بلکہ اگر اس نے رہائی نہ بھی دی ہوتی تو بھی۔ ہماری طرف آتے ہوئے، ہمیں بھی خدا کے بے لوث فرمانبردار ہونا چاہئے، کیونکہ ہم نے خود کو مکمل طور پر اس کے لئے نثار کیا ہے۔ یہ بے لوث جان نثاری ہے جو ہماری فرمانبرداری کا وسیلہ ہے۔ بیشک خدا رہائی دے سکتا ہے،تاہم، ہماری فرمانبرداری کی بنیاد اس پر یا کسی اور شرط پر نہیں ہونی چاہئے۔