خداوند کا خوف علم کا شروع ہے
”خداوند کا خوف علم کا شروع ہے“
موجودہ کالم کے عنوان میں نے خدا کے کلام میں سے امثال کی کتاب کے 1باب کی 7آیت سے لیاہے، آج یہ ہمارا ابتدائی نقطہ ہو گا۔
امثال 1باب 7آیت:
”خداوند کا خوف علم کا شروع ہے“
دیگر الفاظ میں ، کسی کو خداوند کے بارے میں جاننے کیلئے، اسے خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ یا مختلف انداز میں کہتے ہوئے، اگر کسی کو خدا کا خوف نہیں ہے اس نے پھر اسے جاننا شروع بھی نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کلامِ پاک کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہو، ہو سکتا ہے اسے اس کے عقائد کا بہت تفصیلی اور موزوں علم ہو، تاہم، اگر اسے خدا کا خوف نہیں ہے ، گو کہ وہ کلامِ پاک جانتا ہے، پھر بھی وہ خدا کو نہیں جانتا جس نے وہ سب لکھا ہے۔ خدا کے خوف کے بغیر کلام کا علم خدا کا علم نہیں ہے۔ یہ خدا کا علم صرف تب بنتا ہے جب یہ دماغ سے ہو کر دل تک پہنچتا ہے۔ جیسے کہ امثال2باب 1تا 5آیت ہمیں بتاتی ہے:
”اے میرے بیٹے! اگر تو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے ایسا کہ تو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تو عقل کو پکارے اور فہم کیلئے آواز بلند کرے اور اس کو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اس کی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تو خداوند کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کرے گا۔ “
یہ صرف دل ہی ہے جسے سمجھنے کا کام کرنا ہے۔ یہ دل ہی ہے جسے خدا کے آگے جھکنا ہے اور یہ دل ہی ہیں جنہے یسوع مسیح کو ان پر حکومت کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اپنے آپ کھلنا ہے۔ صرف اگر ہم خدا کے کلام کو دل میں داخل کرتے ہیں تو،”ہم خدا کے خوف کو سمجھیں گے اور خدا کی معرفت حاصل کریں گے۔ “
1. خدا وند کا خوف: صرف عزت ہی نہیں
خدا کے خوف کو بہت دفعہ احترام تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ محض احترام نہیں ہے۔ احتام شاید ایک دوسرے کے برابر لوگوں میں ہوتا ہے نہ کہ کسی اونچے مرتبے والی ہستی کا ہوتا ہے۔ کسی سلطنت کا خادم شاید اپنے بادشاہ کااحترام نہ کرتا ہو بلکہ اپنے ساتھی کام کرنے والوں کا احترام کرتا ہے۔ گو کہ اگر بادشاہ کے تخت کے سامنے وہ وہ بہت بہادر ہے، جیسے کہ ہم، یسوع مسیح کے خون کے وسیلہ سے، خدا کے تخت کے سامنے ، اور اس کے سامنے جو تخت پر بادشاہ کے طور پر بیٹھا ہے ،بہادری سے کھڑے ہوتے ہیں۔ خداوند کے خوف کا مطلب ہے کہ ہمارا دل مکمل طور پر یہ جانتا ہے کہ ہم کون ہیں،وہ کون ہے جو تخت پر بیتھا ہے اور وہ پہم کتنا اعلیٰ مقام رکھتا ہے ۔ جیسے یرمیاہ 10باب 6اور 7آیت کہتی ہے کہ:
”اےخداوند! تیرا کوئی نظیر نہیں ۔ تو عظیم ہے اور قدرت کے سبب سے تیرا نام بزرگ ہے۔ اے قوموں کے بادشاہ!کون ہے جو تجھ سے نہ ڈرے؟ “
اور مکاشفہ 15باب 4آیت:
”اے خدواند ! کون تجھ سے نہ ڈرے گا؟“
اور ملاکی 1باب 6آیت:
”رب الا قواج فرماتا ہے ! بیٹا اپنے باپ کی اور نوکر اپنے آقا کی تعظیم کرتا ہے پس اگر میں باپ ہوں تو میری عزت کہاں ہے؟ اور اگر آقا ہوں تو میرا خوف کہاں ہے؟“
”خداوند فرماتا ہے کیا تم مجھ سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم میرے حضور تھر تھراﺅ گے نہیں جس نے ریت کو سمندر کی حد پر ابدی حکم سے قائم کیا کہ وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتااور پر چند اس کی لہریں اچھلتی ہیں تو بھی غالب نہیں آتیں او رہر چند شور کرتی ہیں تو بھی اس سے تجاوز نہیں کر سکتیں؟لیکن ان لوگوں کے دل باغی اور سرکش ہیں ۔ انہوں نے سر کشی کی اور دور ہو گئے۔ انہوں نے اپنے دل میں نہ کہا کہ ہم خداوند اپنے خدا سے ڈریں جو پہلی اور پچھلی برسات وقت پر برساتا ہے اور فصل کے مقررہ ہفتوں کو ہمارے لئے موجود رکھتا ہے۔ “
33زبور 6تا 9آیات:
”آسمان خداوند کے کلام سے اور اس جا سارا لشکر اس کے منہ کے دم سے بنا۔ وہ سمندر کا پانی تودے کی مانند جمع کرتا ہے وہ گہرے سمندروں کو مخزنوں میں رکھتا ہے۔ ساری زمین خداوند سے ڈرے۔ جہان کے سب باشندے اس کا خوف رکھیں۔ کیونکہ اس نے فرمایا اور ہو گیا ۔ اس نے حکم دیا او واقع ہوگیا۔ “
حقیقتاً کون خداوندکا خوف نہیں رکھے گا؟ کون اس کے آگے سجدہ نہیں کرے گا۔ اس نے ہمیں اور ساری کائنات کو خلق کیا۔ ہر چیز، دیدنی اور نادیدنی اسی کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔ خدا کے خوف کے بغیر کلامِ پاک کا علم یقینا تکبر کی طرف لے جائے گا(1کرنتھیوں 8باب 1آیت)اور وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ وہ اس تخت کے سامنے اور اس ہستی کے سامنے بہادری سے جا سکتا ہے جو اس پر بیٹھا ہیاور وہ خدا کا خوف نہ رکھے تو یقینا وہ لوقا 18باب میں فریسی کی مانند اس کے پاس جائے گا:
”پھر اس نے بعض لوگوں سے جو اپنے پر بھروسہ رکھتے تھے کہ ہم راستباز ہیں اور باقی آدمیوں کو ناچیز جانتے تھے یہ تمثیل کہی۔ کہ دو شخص ہیکل میں دعا کرنے لگے۔ ایک فریسی، دوسرا محصول لینے والا۔ فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یوں دعا کرنے لگا کہ اے خداوند! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں باقی آدمیوں کی طرحظالم بے انصاف زنا کار یا اس محصول لینے والے کی مانند نہیں ہوں میں ہفتے ٰن دو بار روزہ رکھتا اور اپنی آمدنی پر دہ یکی دیتا ہوں پر محصول لینے والے نے دور کھڑے ہوکر اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اٹھائے بلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا کہ اےخدا! مجھ گناہ گار پر رحم کر۔ میں تم سے کہتا ہوںکہ یہ شخص دوسرے کی نسبت زیادہ راستباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔ “
یہ روح ہی ہے جو زندگی بخشتا ہے۔ جو پاکدل ہیں وہ خدا کو دیکھیں گے(متی5باب 8آیت) اورخداوند ان سے خوش ہے جو اس سے ڈرتے ہیں(147زبور11آیت)۔
2. نئے عہد نامہ میں جرات اور خداوند کا خوف
خدا وند کے خوف کے بارے میں ایک نظریہ ہے جو بہت سے لوگ ،بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر، مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح کے کام کی بدولت یہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ اس خوف کے بیچ جو مسیح نے ہمیں دیا اور اس بہادری کے بیچ الجھن پیدا کرت ہیں جو ہمیں تخت پر بیٹھی ہوئی عظیم ہستی کیلئے ہے۔ تاہم ، بادشاہ کے حضور خوف رکھنا ایک بات ہے اور بادشاہ کے سامنے بہادر بننا الگ الگ باتیں ہیں۔ جیسے یسعیاہ33باب 6آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:
یسعیاہ33باب 6آیت:
”خداوند کا خوف اس کا خزانہ ہے۔ “
خداوند کاخوف خزانہ ہے جس کی کمی سے کوئی بھی تخت کے سامنے بہادری مغروری بنا دیتی ہے۔ یسوع مسیح کے کام کی طعف جاتے ہوئے، جو جرات اس نے پائی تھی، اس نے نہ صرف خدا کے خوف کو ختم کیا بلکہ میرا یقین ہے کہ اس کے بنا کام نہیں ہو سکتا۔ اس کے بنا یہ تکبر، فریسی کی جیسی فطرت بن جاتی ہے۔ اسی لئے خداوند کے خوف کا نئے عہد نامہ اور پرانے عہد نامہ میں ایک الگ مقام ہے۔ یقینا، اعمال 9باب 31آیت سے شروع کرتے ہوئے ہم پڑھتے ہیں۔
”پس تمام یہودیہ اور گلیل اور سامریہ میں کلیسیاءکو چین ہو گیا اور اس کی ترقی ہوتی گئ اور وہ خداوند کے خوف اور روح القدس کی تسلی پر چلتی اور بڑھتی جاتی تھی۔ “
1پطرس 2باب 17آیت:
”سب کی عزت کرو برادری سے محبت رکھو۔ خدا سے ڈرو۔ بادشاہ کی عزت کرو۔ “
2کرنتھیوں 7باب 1آیت:
”پس اے عزیزو! چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے ہیں آﺅ ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خدا کے خوف سے پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔ “
”اے نوکرو! جو جسم کے رو سے تمہارے مالک ہیں سب باتوں میں ان کے فرمانبردار رہو۔ آدمیوں کو خوش کرنے والوں کی طرح دکھاوے کیلئے نہیں بلکہ صاف دلی سے اور خدا کے خوف سے۔ “
کرنیلیئس، پہلا غیر یہودی تھا جس کے گھر میں انجیل کی تعلیم دی گئی ، خدا کا خوف رکھنے والا شخص تھا۔ جیسے اعمال 10باب 1اور 2آیت ہمیں بتاتی ہے:
اعمال 10باب 1اور 2آیت:
”قیصریہ میں ایک کرنیلیئس نامی شخص تھا۔ وہ اس پلٹن کا صوبہ دار تھا جو اطالیانی کہلاتی ہے۔ وہ دیندار تھا اور اپنے سارے گھرانے سمیت خدا سے ڈرتا تھا اور یہودیوں کو بہت خیرات دیتا تھا اور ہر وقت خدا سے ڈرتا تھا۔ “
اور جیسے پطرس نے اعمال 10باب 34اور 35آیت میں کہا :
اعمال10باب 34اور 35آیت:
”پطرس نے زبان کھول کر کہا ، اب مجھے پورا یقین ہو چکا ہے کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں ہے۔ بلکہ ہر قوم میں جو اس سے ڈرتا ہے اور راستبازی کرتا ہے وہ اس کو پسند آتا ہے۔ “
خداوند کا خوف تخت کے سامنے بہادری کے متضاد نہیں ہے۔ جو اس کے متضاد ہے وہ ہے بزدلی اور یہی ہے جو خداوند نے ختم کی ہے۔ اب ہم مزید خدا کے تخٹ کے سامنے ڈرتے ہوئے، بزدلی کے ساتھ نہیں آتے بلکہ خداوند کےخوف اور بہادری کے ساتھ آتے ہیں۔
3. خداوند کا خوف: زندگی اور برکتوں کا سر چشمہ
خداوند کاخوف ایک ایسا موضوع ہے جس پر خدا کے کلام میں خاص زور دیا گیا ہے۔ اور یہ ایک ایسا موضوع بھی ہے جو بہت سی برکات اور وعدوں سے منسلک ہے، جیسا کہ یہ درج ذیل دئیے گئے حوالہ جات میں بھی ظاہر ہوتا ہے، اور جس موضوع کیلئے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ پڑھنے والے احتیاط کے ساتھ اور ایک ایک آیت پڑھیں۔
پس، زبور سے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
”خداوند سے ڈرو اے اس کے مقدسو! کیونکہ جو اس سے ڈرتے ہیں ان کو کچھ کمی نہیں۔ “
34زبور 7آیت:
”خداوند سے ڈرنے والوں کے چاروں طرف اسکا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے اور ان کو بچاتا ہے۔ “
112زبور 1اور 2آیت:
”خداوند کی حمد کرو۔ مبارک ہے وہ آدمی جو خوب مسرور رہتا ہے۔ اس کی نسل زمین پر زور آور ہوگی۔ “
25زبور 12آیت:
”وہ کون ہے جو خداوند سے ڈرتا ہے؟خداوند اس کو اسی راہ کی تعلیم دے گا جو وہ پسند کرتا ہے۔ “
25زبور14آیت:
”خداوند کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں اور وہ اپنا عہد ان کو بتائے گا۔ “
31زبور19آیت:
”آہ، تو نے اپنے ڈرنے والوں کیلئے کیسی بڑی نعمت رکھ چھوڑی ہے۔ جسے تو نے بنی آدم کے سامنے اپنے توکل کرنے والوں کیلئے تیار کیا۔ “
33زبور18آیت:
”دیکھو! خداوند کی نگاہ ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔ جو اس کی شفقت کے امیدوار ہیں۔ “
85زبور9آیت:
”یقینا اس کی نجات اس سے ڈرنے والوں کے قریب ہے تاکہ جلال ہمارے ملک میں بسے۔ “
103زبور11آیت:
”کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی زفقت ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔ “
103زبور13آیت:
”جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے اسی طرح خدا وند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔ “
103زبور17آیت:
”لیکن خداوند کی زفقت اس سے ڈرنے والوں پر ازل سے ابد تک اور اس کی صداقت نسل در نسل ہے۔ “
111زبور4اور 5آیت:
”اس نے اپنے عجائب کی یادگار قائم کی ہے خداوند رحیم و کریم ہے۔ وہ ان کو جو اس سے ڈرتے ہیں خوراک دیتا ہے۔ وہ اپنے عہد کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ “
115زبور13آیت:
”جو خداوند سے ڈرتے ہیں کیا چھوٹے کیا بڑے وہ ان سب کو برکت دے گا۔“
128زبور1تا 4آیات:
”مبارک ہے ہر ایک جو خداوند سے ڈرتا ہے۔ اور اسکی راہوں پر چلتا ہے۔ تو اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائے گا۔ تو مبارک اور سعادت مند ہوگا۔ تیری بیوی تیرے گھر کے اندر ایک میوادار تاک کی مانند ہوگی اور تیری اولاد تیرے دستر خوان پر زیتون کے پودوں کی مانند ۔ دیکھو ایسی برکت اسی آدمی کو ملے گی جو خداوند سے ڈرتا ہے۔ “
145زبور19آیت:
”جو اس سے ڈرتے ہیں وہ ان کی مراد پوری کرے گا ۔ وہ ان کی فریاد سنے گا اور ان کو بچا لے گا۔ “
امثال 10باب 27آیت:
”خداوند کا خوف عمر کی درازی بخشتا ہے۔ “
امثال 14باب 26آیت:
”خداوند کے خوف میں قوی امید ہے اور اس کے فرزندوں کو پناہ کی جگہ ملتی ہے۔ “
امثال14باب 27آیت:
”خداوند کا خوف حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہے ۔ “
امثال15باب33آیت:
”خداوند کا خوف حکمت کی تربیت ہے اور سرفرازی سے پہلے فروتی ہے۔ “
امثال16باب6آیت:
”شفقت اور سچائی سے بدی کا کفارہ ہوتا ہے۔ اور لوگ خداوند کے خوف کے سبب سے بدی سے باز آتے ہیں۔ “
امثال19باب 23آیت:
”خداوند کا خوف زندگی بخش ہے۔ اور خدا ترس سیر ہوگا اور بدی سے محفوظ رہے گا۔ “
امثال 22باب 4آیت:
”دولت اور عزت و حیات خداوند کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔ “
امثال 23باب 17آیت:
”تیرا دل گناہگاروں پر رشک نہ کرے بلکہ تو دن بھر خداوند سے ڈرتا رہ۔ “
واعظ 8باب 12اور 13آیت:
”اگر چہ گناہگار سو بار برائی کرے اور اسکی عمر دراز ہو تو بھی میں یقینا جانتا ہوں کہ ان ہی کا بھلا ہو گا جو خدا ترس ہیں اور اس کے حضور کانپتے ہیں۔ لیکن گناہگار کا کبھی بھلا نہیں ہو گا اور نہ وہ اپنے دنوں کو سایہ کی مانند بڑھائے گا اس لئے کہ وہ خدا کے حضور کانپتا نہیں۔ “
حقیقتاً میں ایسے کسی اور موضوع کے بارے میں نہیں جانتاجو خدا کے خوف کی مانند اتنے زیادہ وعدوں سے منسلک ہو۔ یقینا ہمیں ان وعدوں کی خاطر اس کا خوف نہیں رکھنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہمارا تعلق ایک تجارتی کام نہیں ہے بلکہ محبت کی دوستی ہے جس کا مقصد ایک دوازے کے وسیلہ سے اسے جاننا ہے جو کہ یسوع مسیح ہے۔ یہ یسوع ہی تھا جس نے وہ سب کچھ تیار کیا جو ہمیں بادشاہت میں داخل ہونے کیلئے درکار تھا۔
4. نتیجہ
اس کالم کو ختم کرتے ہوئے میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اس وسیع اور بڑے موضوع کیلئے یہ سب کچھ بہت کم تھا۔ گو کہ ایسے موضوع کو اتنے کم مواد میں پورا کرنا ناممکن ہے،مجھے امید ہے کہ یہ ہمیں اس کی کم از کم اہمیت جاننے کے لئے فائدہ مند ہے۔ ہم ایسے لوگ نہیں بننا چاہتے جو خدا کو جانتے ہیں مگر محض ریاکارانہ طور پر۔ ہم حروف میں سب کچھ مناسب نہیں چاہتے ، اور تاہم اس خداوند کو نہ جانتے ہوئے جس نے یہ حروف لکھے ہیں۔ ہمارا صرف ایک مقصد خدا کو جاننا، اور جیسا کہ ہم نے پڑھا، خدا وند کا خوف علم کا شروع ہے، علم کی شرط کو جاننا ہے۔ نتیجہ:
”حاصلِ کلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اس کے حکموں کو مان کہ اسنا کا فرضِ کلی یہی ہے۔ “