عموماًبائبل سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات

حال ہی میں مَیں نے کہیں یہ پڑھا ہے کہ بائبل کسی بھی دوسری کتاب کی نسبت سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔اس کا دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔گو کہ بہت زیادہ دلچسپی کے بعد کوئی بھی شخص اس بات کی توقع کرے گا کہ بائبل کے مصنف سے متعلق، بائبل کس طرح لکھی گئی، اس کے فوائد کیا ہیں او ر اس کی تشریح کیا ہے ، کوئی شبہ نہیں ہے، بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان سوالات کا موقع آتا ہے، لوگ اس معلومات کو حاصل کرنے کی بجائے کچھ اور کام کرنے لگ جاتے ہیں جو بائبل دیتی ہے۔ ظاہری نتیجہ یہ الجھن ہے کہ آپ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جو دوسری کتب کے ساتھ کیا جاتا ہے؛ کتاب سے متعلق قابلِ بھروسہ معلومات کیا ہیں۔ اس کالم کا مقصد اس معلومات کو تلاش کرنا ہے تا کہ ہم سچائی سے بے بہرہ نہ رہیں۔

1 بائبل کا مصنف کون ہے؟

اس اہم سوال کا جواب حاصل کرنے کےلئے ہم 2 تیمیتھیس 3باب 16آیت کھولیں گے۔ جہاں یہ کہتی ہے:

2 تیمیتھیس 3باب 16آیت

”ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے ۔۔۔“

درج بالا حوالے میں لفظ ”صحیفہ“ اس کتاب کا ایک دوسرا نام ہے جسے آج ہم بائبل کہتے ہیں۔ دیگر الفاظ میں ، وہ کتاب جس کے بارے ہم بات کر رہے ہیں خود کو جو نام دیتی ہے وہ ”صحیفہ“ ہے۔ ”بائبل“ نام بعد میں دیا گیا تھا۔جب تک یہ بات واضح ہوئی کہ صحیفہ اور بائبل مترادف الفاظ ہیں،ہم ان دونوں الفاظ کو ایک ہی اصطلاح میں استعمال کر سکتے ہیں۔

لہٰذہ ، درج بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ساری بائبل خدا کے الہام سے عطا کی گئی ہے۔ یہ فقرہ کہ ” خدا کے الہام سے“ حقیقتا ً یونانی زبان سے ہے جس کا بنیادی لفظ ”theopneustos“ ہے۔ یہ لفظ ” theos“ سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے خدا اور لفظ ”pneustos“ ہے جس کا مطلب ہے سانس لینا۔ اسی لئے ، جب بائبل کہتی ہے کہ ”theopneustos“ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ” خدا کی سانس سے“ لیا ہوا ہے جس کا معنی ہے کہ یہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں ہیں اور نتیجتاً یہ خدا کی پیدا کی ہوئی چیز ہے۔ لہٰذہ، بائبل خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں ہیں یا خدا کی پیدا کی ہوئی ہے۔

2 بائبل کیسے لکھی گئی؟

یہ جانتے ہوئے کہ بائبل ایک کتاب ہے جس کا مصنف خدا ہے، دوسرا سوال جو ہمارے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے یہ کیسے لکھی؟ اس سے ملتا جلتا سوال جو بہت سے لوگ پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ: ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا بائبل کا مصنف ہے جب کہ میں نے جو پڑھا ہے وہ پولوس، یوحنا وغیرہ نے لکھے ہیں؟'' دوبارہ، سوائے بائبل کے ہمیں کوئی موثر جواب نہیں مل سکتا۔ پس، 2پطرس 1باب 20 اور 21آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

2پطرس 1 باب 20 اور1 2آیت:

”اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب ِ مقد س کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پرموقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے“۔

اس حوالے کا تجزیہ کرنے سے قبل،ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم ”کتابِ مقدس کی نبوت کی بات“ کا کیا مطلب اخذ کرتے ہیں۔میں یہ کہہ رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ نبوت کا عمومی مطلب مستقبل کے بارے میں بتانا ہے۔تاہم، یہ بائبل کا عام استعمال ہونے والا لفظ نہیں ہے۔بائبل کے حوالے سے ، ”نبوت“ کا مطلب ہے کہ ان باتوں کو براہِ راست بیان کرنا جن کی بنیاد روحانی ہے۔ چاہے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ مستقبل سے متعلقہ ہے یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس بات کو جانتے ہوئے کہ نبوت کا کیا مطلب ہے، ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کتابِ مقدس کی نبوت کی بات کا کیا مطلب ہے: اس کا مطلب ہے بائبل بطور ان تمام تر پیشن گوئیوں کا الگ شمارہ جو اس میں لکھی گئی ہیں۔لہٰذہ، 2 پطرس ہمیں بتاتا ہے کہ بائبل کا کوئی بھی حصہ انسان کی مرضی سے نہیں لکھا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر، ایسا بالکل نہیں ہے کہ پولوس نے ایک دن فیصلہ کیا اور کہیں بیٹھ کر افسیوں کے نام خط لکھ دیا۔اگر ایسا ہوتا تو افسیوں آدمی کی مرضی سے لکھا گیا ہوتا جس کی خدا مذمت کرتا ہے۔ یہ جاننے کےلئے کہ پولوس اور دوسروں نے کس طرح اس میں اپنا حصہ ڈالا ہمیں اسی حوالے کا دوسرا حصہ پڑنا ہوگا۔ اس کا جواب 21آیت کے دوسرے حصے میں ہے جہاں ہمیں بتایا گیا ہے کہ کتاب مقدس کی نبوت کی باتیں یعنی بائبل خدا کے مقدسین نے لکھی تھی جنہیں روح القدس نے لکھنے کی تحریک عطا کی تھی۔اس لئے، کس نے بائبل لکھی؟ خدا کے مقدس لوگوں نے، جیسے خدا انہیں ہدایت دیتا تھا جو کہ روح القدس ہے۔ اور آگر آپ پوچھیں کہ خدا کس طرح ان کو ہدایت دیتا تھا ، تو اس کا جواب گلتیوں میں پولوس کے معاملے سے ملے گا جو سب کےلئے اسی طرح لاگو ہوتا ہے:

گلتیوں 1باب 11تا 12آیات۔

''ے بھائیو! میں تمہیں جتائے دیتا ہوں کہ جو خوشخبری میں نے سنائی وہ انسان کی سی نہیں۔ کیونکہ وہ مجھے انسان کی طرف سے نہیں پہنچی اور نہ مجھے سکھائی گئی بلکہ یسوع مسیح کی طرف سے مجھے اس کا مکاشفہ ہوا۔''

جس طریقے سے خدا ان لوگوں کو ہدایت دیتاتھا وہ ملکیت کی طرح نہ تھا کیونکہ خدا ملکیت نہیں رکھتا(1کرنتھیوں 14باب32تا 33 آیات)۔ اس کی بجائے یہ مقاشفہ ہوئی تھی۔دوسرے لفظوں میں، خدا نے پولوس کو وہ بتایا جو لکھنا تھا اور پولوس نے وہ بیٹھ کر لکھا۔لہٰذہ گلتیوں کس نے لکھی؟ پولوس نے۔گلتیوں میں کس کے خیالات اور دستخط پائے جاتے ہیں؟ خدا کے۔ لہٰذہ ، مصنف کون ہے؟ خدا مصنف ہے۔پولوس یا دیگر لوگ جنہوں نے بائبل میں حصہ ڈالا کون تھے؟وہ لکھاری تھے جنہوں وہی لکھا جو مصنف، خدا، نے انہیں بتایا۔اسی لئے، بائبل ، جسے گو کہ لکھاریوں نے لکھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک مصنف، خدا ہے۔ یہ ڈائریکٹر اور سیکرٹری کی مانند ہے۔سیکرٹری وہی لکھتی ہے جو اس کا ڈائریکٹر لکھنے کو کہتا ہے۔لکھائی کا کام کون کرتا ہے؟سیکرٹری۔یہ کس کی کہلاتی ہے؟ ڈائریکٹر کی۔ اور جیسے کہ ڈائریکٹر کے بہت سے سیکرٹری ہو سکتے ہیں اسی طرح کے بہت سے لکھار ی تھے جنہوں وہ لکھا جو وہ چاہتا تھا۔

اسی لئے نتیجتاً: ہر ایک صحیفہ یا کلام کی بات خدا کی کہی ہوئی ہے اور اسے لوگوں نے خدا کی ہدایت یعنی مقاشفہ کی رو سے لکھا۔

3 بائبل کا فائدہ کیا ہے؟

ایک بار پھر درست جوابات اسی کتاب میں سے تلاش کرنے سے ملیں گے۔ پس، 2تمیتھیس 3باب16 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:

2تمیتھیس 3باب16 آیت

”ہر ایک صحیفہ خدا کے الہام سے ہے اور فائدہ مند بھی ہے۔۔۔۔“

بائبل کے فائدہ کے بارے میں سب سے پہلی معلومات یہ کہ بائبل فائدہ مند بھی ہے۔مزید پڑھنے سے ہم یہ جانیں گے کہ اس کے مفادات کیا کیا ہیں:

2تمیتھیس 3باب16 تا 17آیات

”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کےلئے فائدہ مند بھی ہے“۔

3.1 ”تعلیم میں“

پہلی چیز جس کےلئے بائبل فائدہ مند ہے وہ ہے تعلیم۔یہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ جب یہ خدا سے متعلق بات ہوتی ہے تو لوگ عموماً روایات کی تعلیم یا معاشرتی تعلیم کی پیروی کرتے ہیں جیسے کہ ” مذہبی تعلیم کا مناسب وسیلہ“۔تاہم، بہت سے لوگوں کےلئے خدا کے بارے میں تعلیم کاہن، خاندان سکول وغیرہ سے ملتی ہے۔اگر یہ ذرائع بائبل کے مطابق تعلیم دیتے ہیں تو ان ذرائع سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بد قسمتی سے، ایسا ہوتا نہیں ہے کہ ان ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیم بہترین ہو بلکہ وہ تعلیم غلط ہوتی ہے کیونکہ وہ اس تعلیم کے ساتھ اتفا ق نہیں رکھتی جو تعلیم بائبل فراہم کرتی ہے۔ نجات کے موضوع پر تعلیم دینے کےلئے بائبل ایک مثال استعمال کرتی ہے۔ اس موضوعپر جو جواب بائبل دیتی ہے وہ بہت واضح ہے:

رومیوں 10باب9آیت:

”کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں سے جلایا ہے تو نجات پائے گا۔©

افسیوں 2باب 8اور 9آیات بھی:

”کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی کی بدو لت نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے ، اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تا کہ کوئی فخر کرے۔“

کیا اسے واضح طور پر بیان کیا جا سکتا ہے کہ نجات پانے کےلئے جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے وہ آپ کے نیک اعمال نہیں بلکہ اس بات پر ایمان رکھنا ہے کہ یسوع خداوند ہے اور خدا نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا؟ اگر آپ کا سکول ، آپ کا پاسٹر، آپ کا خاندان کسی اور چیز کی حمایت کرتا ہے تو آپ کس کی پیروی کریں گے؟ بائبل کی تعلیم کی یا دیگربہت سے لوگوں کی تعلیم کی چاہے وہ کوئی بھی ہوں؟میں تو بائبل کی تعلیم کی حمایت کرتا ہوں ، کیونکہ صرف بائبل کی تعلیم ہی فائدہ مند ہے۔

3.2 ”الزام میں“

تعلیم کے علاوہ، بائبل الزام اور اصلاح میں بھی فائدہ مند ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ بائبل کو ہمیں بتانا ہے اگر ہم کہیں غلط ہیں اور یہ کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔لہٰذہ اگر میرا یہ ایمان ہے کہ نجات اعمال کی بدولت ہے ، یا مزید کچھ نیک اعمال پر ایمان رکھتے ہوئے ، یا اس حقیقت کو نا مانتے ہوئے کہ یسوع ہی خداوند ہے اور خدا نے اسے مردوں میں زندہ کیاتو مجھے کس چیز کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کےلئے درج بالارومیوں10باب 9آیت دوبارہ مفید ہوگی،اگر میں اس کو نہ مانو جو یہ کہتی ہے، یہ مجھے کہتی ہے کہ میں سچ کہنے سے غلط ہوں۔ پس مجھے یہ تعلیم دیتی ہے ، یہ مجھے ملامت کرتی ہے اور میری اصلاح کرتی ہے اور یہ سب کچھ ایک ہی آیت میں ۔ ایک مثال افسیوں 4باب31آیت کی ہے:

افسیوں 4باب31آیت

”ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بد گوئی ہر قسم کی بد خواہی سمیت تم سے دور کی جائے گی۔“

اگر میں تلخ مزاج ہوں ، یا قہر والا ہوں،وغیرہ وغیرہ، بائبل کہتی ہے کہ میں غلط ہوں۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ غلط کیوں ہے؟اس لئے نہیں کہ معاشرہ یا دنیا کا اخلاقی نظام کہتا ہے کہ یہ غلط ہے بلکہ اس لئے کیونکہ خدا اپنے کلام میں یہ کہتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ یہ جاننے کےلئے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہمیں دنیاوی اخلاقی نظام کو نہ جاننے اور نہ اسکی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ جو آپ کو جاننے اور پیروی کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے خدا کا کلام۔

3.3 ”اصلاح میں“

تیسری چیز جس کے لئے بائبل فائدہ مند ہے وہ ہے اصلاح۔ اصلاح ہمیشہ کسی بھی تنقید کےلئے انتہائی ضروری عنصر ہے۔ الزام یا تنقید سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم کہاں غلط ہیں جبکہ اصلاح سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ درست کام کیسے کرنا ہے۔ الزام اور اصلاح کے بعد جاننے کےلئے افسیوں 4باب1 3آیت سے ایک آیت آگے جانا ہوگا۔ افسیوں 4باب32آیت ہمیں بتاتی ہے کہ :

افسیوں 4باب32آیت:

”اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“

یہ سب جن کےلئے بائبل فائدہ مند ہے یعنی کہ ، تعلیم، اصلاح، الزام اور راستبازی میںہدایت یا جیسے یونانی لوگ پڑھتے ہیں کہ راستبازی میں تربیت کےلئے ،فائدہ مند ہیں۔

3.4 ”تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کےلئے بالکل تیار ہو جائے ۔“

خدا نے ہمیں یہ بائبل دی ، جو ان تمام باتوں کےلئے فائدہ مند ہے اسکی وجہ یہ ہے تاکہ خدا کے لوگ کامل بنیں۔اس کا مطلب یہ کہ آپ بائبل کے بغیر کامل نہیں بن سکتے۔

یہ حوالہ ہمیں یہ بھی باتا ہے کہ بائبل ہمیں اس لئے دی گئی ہے تا کہ مردِ خدا ” نیک کام کےلئے بالکل تیار ہو جائے“۔یہاں نیک اعمال سے مراد وہ نیک کام نہیں ہیں جو آپ نے خدا کےلئے ”تیار“ کئے ہیں۔ بلکہ یہ وہ نیک کام ہیں ”جن کو خدا نے ہمارے کرنے سے پہلے تیار کیا تھا“ (افسیوں 2باب 10آیت)۔ان نیک کاموں کے لئے تیار ہونے یا بالکل تیار ہونے کےلئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے خدا کی کتاب: بائبل۔

4 بائبل کی صحیح تشریح کون سی ہے؟

بائبل کے حوالے سے تین سب سے بنیادی سوالات کا جواب دینے کے بعد، اب ہم ایک قدم آگے ایک اور بہت خاص اور الجھن کا باعث بننے والے سوال کا تجزیہ کر تے ہیں۔یہ سوال بائبل کی تشریح سے متعلقہ ہے۔اس سوال کےلئے درست جواب کی ضرورت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہاں سینکڑوں جماعتیں ہیں جو بائبل کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں اور تاہم ان میں ایک دوسرے کے خلاف بہت زیادہ امتیاز پایا جاتا ہے۔دوسرے سوالات کی طرح ، یہ جاننے کےلئے کہ بائبل اسکی تشریح کے حوالے سے کیا کہتی ہے، ہمیں بائبل کے پاس ہی جانا ہوگا۔

خدا کے کلام کی تشریح کے حوالے سے ہر ایک مسیحی کی ذمہ داری 2تمیتھیس 2باب 15آیت میں بیان کی گئی ہے۔

2تمیتھیس 2باب 15آیت

”اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کرجس کو شرمندہ ہونا نہ پڑےاور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔“

حق کا کلام خدا کا کلام یعنی بائبل ہے۔ درج بالا آیت ہمیں کہتی ہے کہ، ہم لوگ خدا کے کلام کو درستی سے کام میں لانے کے ذمہ دار ہیں ۔نئے کنگ جیمز ورژن میں "orthotomounta" لفظ ہے جس کا ترجمہ ” درستی“ کیا گیا ہے۔یہ لفظ اسم "orthos" سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے” مکمل طور پردرست“اور فعل "tomo" جس کا مطلب ہے ” کاٹنا“۔لہٰذہ "orthotomounta the word of truth" کا مطلب ہے” خدا کے کلام کو کامل طور پر درست کاٹنا“۔اب خدا کے لئے ا س کے کلام کو کامل طور پر صحیح کاٹنے سے مراد ہے کہ آپ دو یا تین بار تبدیل کریں اور وہ سب درست نہیں ہو سکتیں۔ ایسے معاملے میں یہ خدا کے کلام کی ایک سے زیادہ تشریحات ہوں گی اور یہ ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں گی۔ یہ حقیقت بائبل بطور واحد کامل خدا کے کلام کی تعریف کے برعکس ہوگی۔ یہ جاننے کےلئے کہ یہ خدا کے کلام کی کامل درستگی کیا ہے ہمیں اسی حوالے کو دوبارہ پڑھنا ہوگا جو ہم نے پہلے پڑھا تھا۔

2پطرس 1باب 20آیت:

”اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب ِ مقد س کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پرموقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے“۔

ہم پہلے ہی یہ جانتے ہیں کہ ” کتابِ مقدس کی نبوت “ سے مراد ہر ایک صحیفہ یعنی ساری بائبل مقدس ہے۔درج بالا حوالے کے مطابق، بائبل میں کوئی بھی بات ذاتی اختیار پر مبنی نہیں ہے۔ اب، جبکہ ذاتی اختیار ممنوع ہے، تو دوسرا متبادل صرف یہ ہے کہ بائبل خود ہی اپنے آپ کی تشریح کرتی ہے یعنی یہ خود کار تشریح ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بائبل کے پاس جا کر اپنے معنی دینے کی اجازت نہیں ہے۔اس کی بجائے اگر ہم خدا کی نظر میں مقبول ہونا چاہتے ہیں تو ہم اسی تشریح کے پابند ہیں جو بائبل خود کو دیتی ہے۔ دیگر لفظوں میں، آپ وہ نہیں ہیں جو خدا کے کلام کی کامل درستگی کرنے کے قابل ہیں۔ یہ صرف بائبل ہی ہے جس نے خود کار تشریح کی بدولت خود کو ظاہر کیا ہے۔خدا کے حضور آپ کی ذمہ داری یہ کہ اس کامل درستگی کو تلاش کریں۔

لہٰذہ، اس سوال کا جواب کہ:”بائبل کی صحیح تشریح کون سی ہے؟ “یہ ہے کہ : وہ تشریح جو بائبل خود کی کرتی ہے۔چاہے یہ تشریح کسی بھی جماعت یا روایت کے ساتھ اتفاق کرتی ہے یا نہیں آپ کےلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔آپ کےلئے جس چیز کی اہمیت ہونی چاہئے وہ یہ کہ خدا کی نظر میں مقبول ہونے کےلئے اس کا مطالعہ کریں اور یہ کرنے کےلئے آپ کو بائبل کی وہ تشریح تلاش کرنا ہوگی جو بائبل خود کرتی ہے۔

5 دو مثالوں کی بدولت اصلاح کی اہمیت بیان کی گئی :

ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام ہے اور یہ براہِ راست مکاشفہ کے ذریعے خدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہے۔یہم اس بات کی ضمانت ہے کہ خدا کے کام میں کسی بھی قسم کا اضافہ یا کمی یا کوئی بھی عمومی تبدیلی اسے خدا کا کلام بننے سے روک سکتی ہے۔بالکل ایسے ہی کلام کی تقسیم کے حوالے سے بھی حقیقیت ہے: آپ کے پاس خدا کا کلام اتنی مقدار میں ہے کہ آپ نے اسے تقسیم کر دیا ہے۔نیچے دو مثالیں پیش کی گئی ہیں جو خدا کے کلام کی درست تقسیم میں ناکامی کی اہمیت اور نتائج کو مزید واضح کریں گی ۔

5.1 حوا اور شیطان:

پہلی مثال انسان کی ابتدائی تاریخ سے ہے۔خدا نے پہلے ہی انسان کو زمین کا سارا اختیار دیا تھا( پیدائش 1باب 28آیت) اور صرف ایک پابندی اس پر عائد کی۔ یہ پابندی پیدائش2باب16تا 17آیت میں بیان کی گئی ہے۔

پیدائش2باب16تا 17آیت:

”اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔“

یہ خدا نے کہا تھا یعنی یہ خدا کا کلام ہے۔آئیے 3باب میں چلتے ہیں۔

پیدائش 3باب1آیت:

”اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جنہیں خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اس نے عورت سے کہا کہ کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نا کھانا۔“

اس آیت میں ، سانپ، جو شیطان کا دوسرا نام ہے،عورت کو آزماتا ہے۔جیسے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں ، اس نے شروع سے اپنا اصلی روپ نہیں دکھایا۔بلکہ اس نے ایک سوال سے بات شروع کی:”کیا خدا نے واقعی کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل نا کھانا؟“کیا وہ جانتا تھاجو خدا نے کہا تھا؟ یقینا ہاںتاہم، وہ عورت کے ذہن میں اس حوالے سے شک پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ ترکیب بالکل نہیں بدلی۔در حقیقت، صدیوں سے کتنے لوگ اس دنیا میں تھے جنہوں نے خدا کے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کیں، جیسے شیطان نے کیا؟اور وہ کامیاب ہوتے رہیں گے جب تک خدا کے لوگ اس معاملے میں درست نہیںہوتے جو وہ خدا کے کلام سے جانتے ہیں۔ لہٰذہ خدا کا کلام جو کچھ کہتا ہے اسے اصلاح سے پڑھنا ضروری ہے۔ بد قسمتی سے، عورت نے ایسا نہیں کیا۔ آیت 2اور 3میں اس کا جواب دیکھیں۔

پیدائش 3باب 2اور 3آیات:

”عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا نہ چھونا ورنہ مر جا گے۔“

پہلی نظر میں ، جو کچھ عورت نے کہا وہ بالکل درست لگ رہا تھا۔تاہم جوکچھ خدا نے کہا اس کے ساتھ تھوڑا سا مقابلہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایسا نہیں ہے۔درحقیقت، جب اس نے کہا کہ،”باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھا سکتے ہیں“، خدا نے کہا کہ”باغ کے ہر درخت کا پھل تم بلا روک ٹوک کھا سکتے ہو۔“ظاہر ہے اس عورت نے ”بلا روک ٹوک“ختم کر دیا۔ اب آپ کہیں گے کہ”اوہ، یہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“لیکن اگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو خدا نے یہ کیوں کہا؟ہر بات جو خدا کہتا ہے اس سے فرق پڑتا ہے۔بائبل میں ہر ایک لفظ اس لئے ہے کیونکہ خدا ایسے ہی چاہتا تھا اور اسی لئے یہ خدا کا کلام ہے۔حوا کے حوالے سے، اس کا لفظ کو ختم کرنا شروعات تھی۔ 3آیت،”پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے خدا نے اس کی بابت کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جا گے۔“ کیا یہ واقعی ”خدا نے کہا “تھا؟جی نہیں، کیونکہ اس نے ایسا بالکل نہیں کہ ”او ر نہ چھونا“۔ اس کے علاوہ، اس نے ایسا نہیں کہا کہ”ورنہ (شاید، کبھی)تم مر جا گے“بلکہ اس نے زور دے کر کہا”جس روز (بالکل اسی دن)تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔“پس، چونکہ خدا جو کچھ بھی کہتا ہے وہ درست ہوتا ہے ، اسی روز کسی نہ کسی کو مرنا تھا3۔ لیکن دیکھیں عورت نے کیا کِیا: اس نے شروع میں ایک لفظ کاٹ دیا، پھر اس نے ایک فقرہ شامل کیا ، پھرآخر کار جو کچھ خدا نے زور سے کر کہا تھااس پرسے اس زور کو ختم کر دیا۔اس لئے جو کچھ اس نے کہا وہ خدا کے کلام میں تبدیلی کے سواکچھ نہ تھا۔اب جب شیطان نے دیکھا کہ عورت اس بات میں غلط ہے جو خدا نے اسے کہی ہے تو اس نے اپنے صحیح رنگ دکھانا شروع کر دیا:”تب سانپ نے عورت سے کہا تم ہر گز نہ مرو گے۔“جو کچھ خدا نے کہا اس کے الٹ دیکھیں: خدا نے کہا:”تو ضرور مرا۔“ شیطان نے کہا:”تم ہر گز نہ مرو گے۔“کیا یہ دلچسپی والی بات نہیں ہے کہ اس میں صرف ایک چھوٹے سے لفظ” نہیں“ کا اضافہ ہے جس سے خدا کے کلام کی خلاف ورزی تک پہنچ گئے؟آپ سوچیں گے کہ آج یہ تبدیل ہو چکا ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔مثال کے طور پر، ہزاروں سال پہلے خدا نے کہا تھا کہ ،”تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے۔۔۔۔۔تا کہ کوئی فخر نہ کرے“ (افسیوں 2باب 8اور 9آیت)۔ تاہم، لاکھوں لوگوں کےلئے یہ اس کے برعکس ہے کہ: ”اعمال کے سبب سے“۔اندازہ کریں کہ افسیوں 2باب 8تا 9آیت میں ”نہ کہ اعمال کے سبب سے“لاکھوں لوگوں کےلئے کس نے غیر موجود بنایا ہے؟بالکل اسی نے جس نے پیدائش 3باب ”نہیں “ کا لفظ شامل کیا تھا۔بد قسمتی سے، خدا کے کلام کی غلط بیانی کی صرف یہی ایک مثال نہیں ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں ہے جو اتنی ہی سنجیدہ ہیں جن سے اگر بہت سی روایات کو استعمال نہ کیا جائے تو بچا جا سکتا ہے، ہم خدا کے کلام کو کامل درستگی سے بیان کرتے ہیں۔

5.2 یسوع اور شیطان۔

درج بالا ایک افسوس ناک مثال کے بعد ایک خوشگوار مثلا متی 4باب 1تا 11آیت میں پڑھیں۔

متی 4باب 1تا 11آیت

”اس وقت روح یسوع کو جنگل میں لے گیا تا کہ ابلیس سے آزمایا جائے اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کرے آخر کوا سے بھوک لگی۔ اور آزمانے والے نے اس کے پاس آکر کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے توفرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔“

اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور کہیں،آپ کے خیال میں شیطان نے کس طرح یسو ع سے بات کی ہوگی؟بہت سالوں تک، مذہبی تاثر کی وجہ سے، میں سمجھتا تھا کہ ایک کالی نگت والی مخلوق جس کے سر پر دو سینگ ہیں یہاں بات کر رہی ہے۔لیکن بائبل شیطان کو اس طرح کہاں بیان کرتی ہے؟کہیں نہیں۔بائبل کے مطابق،شیطان ایک بد روح ہے، ایک گرایا گیا فرشتہ، جس کی کوئی شکل نہیں ہے۔لہٰذہ شیطان یہاں کیسے بات کرتا ہے؟جواب ظاہر ہے کہ: مکاشفہ کی بدولت۔اور اگر وہ یسوع کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے تو وہ ہمارے ساتھ بھی یہ کر سکتا ہے۔پس کسی بھی چیز کا روحانیت کے پیش نظر ہونا کافی نہیں ہے۔یہ روحانیت کے مناسب وسیلہ کی بدولت بھی ہونا چاہئے۔جو کچھ خدا کی طرف سے آتا ہے وہ بائبل میں خاص مقام رکھتا ہے اور یہ نچلی سطح پر، وسطی سطح پر اور اوپری سطح پر ایک برکت ہے۔جو کچھ شیطان کی طرف سے آتا ہے وہ بہت جلد یا کچھ وقت کے بعد آنسوں، پریشانی اور بائبل کے خلاف صورتِ حال پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔یہ کہنا مناسب ہوگا، اس غلطی سے بچا جا سکتا ہے اگر میں اپنے خیالات کو بائبل کی روشنی میں دیکھوں۔ اور میں ان مشکلات سے بھی بچ سکتا ہوں جو شیطان نے میری نا آشنائی کو استعمال کرتے ہوئے پیدا کیں۔

ہماری مثال کی طرف آتے ہیں، دیکھیں جو طریقہ شیطان نے استعمال کیا ہے وہ سابقہ مثال میں بھی ایسے ہی تھا۔وہ دوبارہ اس کا مقابلہ کرتا ہے جو خدا نے کہا تھا اور جو یہ تھا کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے(متی3باب17آیت)۔کیا شیطان جانتا تھا کہ یسوع خدا کا بیٹا تھا؟یقینا وہ جانتا تھا۔ لیکن وہ یسوع کو اس کی حقیقی شناخت پر شک کروانے کی کوشش کرتا ہے۔یسوع نے شیطان کو کس طرح جواب دیا۔ 4آیت ہمیں بتاتی ہے:

متی 4باب4آیت:

”اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔“

اس آزمائش سے بچنے کےلئے یسوع جانتا تھا کہ اسے خدا کے کلام کی ضرورت ہے۔دیکھیں وہ کتنا تیز تھا: اس کے پہلے الفاظ یہ تھے کہ،”لکھا ہے کہ۔۔۔“اور اس نے بائبل کا وہ حوالہ دیا جو اس آزمائش کے مطابق تھا۔اس طرح سے اس نے شیطان کو مات دی اور اسی طرح میں اور آپ بھی شیطان کو مات دے سکتے ہیں۔

شیطان پہلی آزمائش میں ناکام ہونے کے بعد دوسری آزمائش جاری رکھتا ہے۔ طریقہ کار وہی ہے۔

متی 4باب 5اور 6آیات:

”تب ابلیس اسے مقدس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ، اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے ہاتھوں پہ اٹھا لیں گے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاں پتھر سے ٹھیس لگے۔“

جیسے کہ درج بالا حوالہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ شیطان بھی بائبل استعمال کر سکتا ہے۔تاہم، وہ اسے دھوکہ دہی کےلئے استعمال کرتا ہے۔جو شیطان نے حوالہ دیا وہ91زبور 11اور 12آیات میں سے ہے۔اگرآپ حوالے کو اس سے ملائیں گے جو شیطان نے کہا ، آپ جانیں گے کہ اس نے ” تیری راہوں میں “ والا فقرہ ختم کر دیا تھا۔اس کے علاوہ، اس نے جان بوجھ کر یسوع مسیح کو اپنے تائیں نیچے گرانے کو کہتے ہوئے خدا کے کلام کی ذاتی تشریح کی تھی کیونکہ اس نے کہا،۔۔۔ یو ں لکھا ہے۔یہ ایک مثال ہے کہ جب کوئی خدا کے کلام کی غلط بیانی کرتا ہے تو کس قسم کے نتائج اخذ کر سکتا ہے۔اب دیکھیں کہ یسوع مسیح نے کیسے ردِ عمل دکھایا:

متی 4باب 7آیت:

”یسوع نےاس سے کہا،” یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔“

یسوع مسیح نے خدا کے کلام کی درست بیانی کی۔آپ خدا کے کلام کے ایک بیان کو اسی موضوع کے حوالے سے کسی دوسری جگہ پر مختلف انداز میں استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔پس، کلامِ پاک کی خود تشریح کرتے ہوئے، یسوع مسیح نے شیطان کو دوسری بار بھی مات دے دی۔ مگر شیطان بضد تھا:

متی 4باب 8اور 9آیات:

”پھر ابلیس اسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی سب سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت اسے دکھائی اور اسے کہا کہ اگر تو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دو ں گا۔“

یہاں شیطان اپنی آخری چال چلتا ہے۔وہ ہر ایک چیز دیتا ہے اور بدلے میں اپنی عبادت چاہتا ہے۔آئیے یسوع مسیح کا ردِ عمل دیکھتے ہیں۔

متی4باب 10آیت:

”یسوع نے اس سے کہا اے شیطان دور ہو، کیونکہ لکھا ہے کہ تو خدا وند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔“

بہت لوگ شیطان کو کہتے ہیں کہ ”اے شیطان دور ہو“ جب وہ اس کا زور اور موجودگی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔مگر یسوع وہاں رکانہیں ۔ اس نے جو کچھ عبادت کے بارے میں خدا کا کلام کہتا ہے وہ بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ” لکھاہے کہ۔۔۔“ یسوع مسیح کے اس طریقہ کار کا نتیجہ 11آیت میں دیا گیا ہے:

متی 4باب 11آیت:

”تب شیطان اس کے پاس سے چلا گیا۔“

کیا آپ کو لگتا ہے کہ جیسے یسوع مسیح نے شیطان کی مانند مقابلہ نہ کیا ہوتا تو وہ اسے چھوڑ چکا ہوتا؟ میرا ایسا خیال بالکل نہیں ہے۔جیسے یعقوب 4باب 7آیت کہتی ہے ،کہ شیطان سے جان چھڑانے کا طریقہ اس کا انکار کرنا ہے:

یعقوب 4باب 7آیت:

”ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔“

یسوع مسیح کی یہ مثال ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شیطان کا مقابلہ کرنے کےلئے ہمیں خدا کے کلام کو بہتر طور پر جاننا اور اسے موثر انداز میں لاگو کرنا چاہئے۔حوا نے ایسا نہیں کیا۔نتائج آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔آپ کو اور مجھے اس بات کا پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں؟ کیا ہم انسانی عقائد اور جماعتی نظریات سے آزادخدا کے کلام کی درست بیانی کریں گے یا ہم انسان کی بنائی ہوئی روایات کی پیروی کریں گے؟جہاں تک خدا کا تعلق ہے تو، ایک درست انتخاب سے زیادہ کوئی اور نہیں کہ: ”اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام

کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جس کو شرمندہ نہ ہونا پڑےاور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہے۔“