یسوع مسیح کے بارے میں چند باتیں

یسوع مسیح کے بارے میں چند باتیں




بِلا تکرار، یسوع مسیح خدا کے کلام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے یہ نہایت ضرور ی ہے کہ خدا کے کلام پر غور کیا جائے اور یسوع کے بارے میں چند باتیں جانی جائیں جو کلام ہمیں بتاتا ہے۔ میں نے کہا ”چند“ باتیں ، کیونکہ اس قسم کے کالم میں یہ ناممکن ہے کہ ہر اس بات پر روشنی ڈالی جائے جو بائبل یسوع کے بارے میں بیان کرتی ہے۔ تاہم ، مجھے امید ہے کہ آج جو ہم باتیں جانیں گے وہ ہمیں یسوع مسیح کو بہتر طور پر جاننے میں مدد دیں گی۔



1 یسوع مسیح: خدا کا بیٹا:
یسو ع مسیح کے بارے میں باتوں کا تجزیہ شروع کرنے کیلئے، ہم یوحنا 10باب35اور36آیت پر جائیں گے۔ یہاں، چند یہودیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، یسوع نے کہا:
یوحنا 10باب35اور 36آیت:
”جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا(اور کتابِ مقدس کا باطن ہونا ممکن نہیں)آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ “
جیسا کہ ہم اس حوالے سے دیکھ سکتے ہیں ،یسوع نے کہا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے، یعنی خدا اس کا باپ تھا۔ اس لئے جو پہلی بات ہم یسوع کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ یہ حقیقت کہ یسوع مسیح واقعی خدا کا بیٹا تھا بہت سے دیگر حوالہ جات سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذہ، مثال کے طور پر، جب فرشتے نے مقدسہ مریم کو پیغام دیا کہ وہ یسوع کی ماں ہوگی، اس نے اسے یہ بھی کہا کہ یسوع خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ دراصل لوقا 1باب35آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:



لوقا 1باب35آیت:
”اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا (مریم سے) کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالےٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ “
اس کے علاوہ، خدانے دو دفعہ ، پہلی بار یسوع کے بپتسمہ پر(متی 3باب16اور 17آیت) اور دوسری بار صورتِ تبدیلی کے پہاڑ پر(متی17باب5آیت) واضح طور پر اعلانیہ کہا کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ سر اصل، اس سے متعلقہ حوالہ جات ہمیں بتاتے ہیں کہ:
متی 3باب16اور 17آیت:
”اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس اوپر گیا اور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔ “
اور متی 17باب5آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:
”وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک بورانی بادل نے ان پر سایہ کر لیا اور اس بادل میں سے آواز آئی یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اس کی سنو۔ “
ان سب کے علاوہ، ایک اور تصدیق جو بائبل یہ ثابت کرنے کیلئے پیش کرتی ہے کہ یسوع مسیح حقیقتاً خدا کا بیٹا ہے اس حقیقت سے عیاں ہوتی ہے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا۔ رومیوں 1باب میں اس حوالے سے بتاتا ہے:



رومیوں 1باب1،3اور 4آیت:
”پولوس کی طرف سے جو یسوع کا بندہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا جسم کے اعتبار سے تو داﺅد کی نسل سے پیدا ہوا لیکن پاکیزگی کی روح کے اعتبار سے مردوں میں سے جی اٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا۔ “
درج بالا حوالہ جات میں ہم اور بہت سے حوالہ جات شامل کر سکتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے[1]۔ اس لئے پہلی بات جو ہم یسوع کے بارے میں دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے۔
2 یسوع مسیح: دنیا کا نجات دہندہ:
یہ جاننے کے بعد یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے آیئے یسوع کے بارے میں مزید باتیں جاننے کیلئے آگے بڑھتے ہیں، شروع کے لئے ہم 1یوحنا 4باب14آیت پر جائیں گے۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں :



1یوحنا 4باب14آیت:
”اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو دنیا کا منجی کرکے بھیجا ہے۔ “
اور یوحنا 12باب47آیت میں یسوع نے کہا کہ:
”اگر کوئی میری باتیں سن کر ان پر عمل نہ کرے تو میں اس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ میں دنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں ۔ “
نجات کیلئے نجات دہندہ کی ضرورت ہے، یعنی ایسا کوئی شخص جو یہ مہیا کر سکے۔ درج بالا حوالہ جات یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ نجات دہندہ یسوع مسیح ہے۔ رومیوں 10باب9آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:



رومیوں10باب9آیت:
”کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا ہے تو نجات پائے گا۔ “
اس کے علاوہ، اعمال 4باب12آیت ہمیں یسوع کے بارے میں بتاتی ہے کہ :
”اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہ، نجات پا سکیں۔ “
یسوع کے علاوہ کسی اور سے نجات ممکن نہیں، اور سوائے یہ اقرار کرنے کے کہ خدا نے یسوع کو مردوں میں سے زندہ کیا اور یسوع پر ایمان لائے بغیر نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔ پس، دوسری بات جو ہم یسوع کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ نجات دہندہ ہے جس کے وسیلہ سے نجات ممکن ہے۔
3. یسوع مسیح: خداوند:
خدا کا بیٹا اور نجات دہندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور نال جو یسوع مسیح کیلئے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔ لفظ ”خداوند“ کے حوالے سے، یہ لفظ یونانی لفظ ”kurios“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے مالک، ایسا شخص جو اختیارات کا مالک ہو ۔ یسوع مسیح واقعی اختیار کا مالک ہے یہ بات اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ اسے بائبل میں قریباً 82دفعہ ”خداوند یسوع مسیح ” کے طور پر پکارا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، بائبل میں بہت سے دیگر حوالہ جات ہیں جو اس کی خداوندیت اور اختیار کا حوالہ دیتے ہیں، جیسے فلپیوں 2باب9تا 11آیات۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں:
فلپیوں2باب9تا11آیات:
”اسی واسطے خدا نے بھی اسے سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا خواہ زمینیوں کا۔ خواہ ان کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کیلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔ “
اور 1کرنتھیوں 15باب24تا28آیت ہمیں بتاتی ہے کہ:
”اسکے بعد آخرت ہوگی ۔ اس وقت وہ ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت نیست کر کے بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالے کر دے گا۔ کیونکہ جب تک وہ سب دشمنوں کو پاﺅں تلے نہ لے آئے اس کو بادشاہی کرنا ضرور ہے۔ سب سے پچھلا دشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔ کیونکہ خدا نے سب کچھ اس کے پاﺅں تلے کر دیا تو ظاہر ہے جس نے سب کچھ اس کے تابع کر دیا وہ الگ رہا۔ اور جب سب کچھ اس کے تابع ہو جائے گا تو بیٹا خود اس کے تابع ہو جائے گا جس نے سب چیزیں اس کے تابع کر دیں تاکہ سب میں سب کچھ خدا ہی ہو۔ “
درج بلا تما م تر حوالہ جات ہمیں یہ واضح بتاتے ہیں کہ ہر چیز اور ہر کوئی یسوع کے تابع ہے، سوائے خدا کے ”جس نے تمام چیزیں اس کے تابع کیں“ اور جس کا خود یسوع تابع ہے۔ خدا کے علاوہ ہر چیز یا ہر کوئی یسوع کے تابع ہے یا ہوگا تاکہ” خدا باپ کے جلال کیلئے ہر زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔ “
4. یسوع مسیح: کلیسیاءکا سر:
یسوع مسیح نہ صرف اس شخص کا مالک اور خداوند ہے جو اس پر ایمان لاتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی اس پر ایمان لانے والوں کا اور ان لوگوں کا جنہیں بائبل ”کلیسیائ“ کہتی ہے مالک اور سر ہے۔ کلسیوں 1باب18آیت ہمیں بتاتی ہے:
کلسیوں 1باب18آیت:
”اور وہی (یسوع)بدن یعنی کلیسیا کا سر ہے۔ “
افسیوں 4باب15اور 16آیت بھی ہمیں بتاتی ہے کہ
”بلکہ محبت کے ساتھ سچائی ر قائم رہ کر اور اس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے بڑھتے جائیں جس سے سارا بدن ہر ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہو کر اور گٹھ کر اس تاثیر کے موافق جو بقدرِ ہر حصہ ہوتی ہے اپنے آپ کو بڑھاتا ہے تاکہ محبت میں اپنی ترقی کرتا جائے۔ “
جیسا کہ درج بالا حوالہ جات واضح کرتے ہیں ، کلیسیا کوئی عمارت نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک شخص کا بدن ہے جنہوں نے مالک، خداوند یسوع مسیح کا اپنے منہ سے اقرار کیا اور ہمارے دلوں میں ایمان رکھتے ہیں کہ خدا نے اسے مردوں میںسے زندہ کیا ۔ 1کرنتھیوں 12باب ہمیں بتاتا ہے کہ:
1کرنتھیوں 12باب12،14،18اور 27آیت:
”کیونکہ جس طرح بدن ایک ہے اور اس کے اعضا بہت سے ہیں اور بدن کے سب اعضا گو کہ بہت سے ہیں مگر باہم ملکر ایک ہی بدن ہیں اسی طرح مسیح بھی ہے۔ ۔ ۔ چنانچہ بدن میں ایک ہی عضو نہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ ۔ ۔ مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا۔ ۔ ۔ اس طرح تم ملکر مسیح کا بدن ہو اور فرداً فرداً اعضا ہو۔ “
ہم میں سے ہر ایک مسیح کے بدن کا رکن ہے اور ہر ایک کے پاس خداوند یسوع مسیح ہے۔ ہم سب مسیح کا بدن، کلیسیا ہیں جس کا سر مسیح ہے اور مسیح کا سر خدا ہے(1کرنتھیوں 11باب 3آیت)۔ جیسا کہ ہمارے ظاہری بدن میں ، سر وہ حصہ ہے جو فیصلے کرتا ہے اور ہر اس کام کا ذمہ دار ہے جو بدن کرتا ہے، اسی طرح مسیح کلیسیا میں ہے: وہ(اور صرف وہ) یہ فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کلیسیا میں کیسے کام کرے گا۔ وہ کلیسیا کا سر ہے۔ ہم اس کے رکن ہیں ، اور خداوند ہی ہے جس نے ہمیں وہاں مقرر کیا کیونکہ وہ ہم سے خوش ہے۔ جیسے میرا ہاتھ میرے سر کا تابعدار ہے، اسی طرح بطور کلیسیاکے رکن ہمیں کلیسیا کے سر، یعنی یسوع مسیح کے تابعدار ہونا چاہئے۔ یسوع مسیح ہی کلیسیا میں سر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم سب رکن ہیں جن کا بہتر کام سارے بدن کیلئے مفید ہے۔
5. یسوع مسیح: خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ:
گو کہ ہم نے بہت کچھ یسوع کے بارے میں جانا ہے اب تک، لیکن یہ فہرست یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یوحنا 14باب6آیت ہمیں بتاتی ہے:
یوحنا 14باب6آیت:
”یسوع نے اس سے کہا کہ روہ، حق اور زندگی میں ہوں ۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔ “
یسوع راہ، حق اور زندگی ہے۔ اس نے کہا کہ کوئی اس کے وسیلہ کے بغیر خدا کے پاس نہیں جا سکتا یعنی خدا تک پہنچنے کا واحد وسیلہ ہے وہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظریہ غلط ہے کہ باقی تمام تر مذاہب مختلف راستے ہیں جو خدا تک ہی پہنچتے ہیں۔ جو ہم نے ابھی پڑھا ہے اس کے مطابق خدا تک پہنچنے کا صرف ایک راستہ ، خداوند یسوع مسیح ہے۔ اس کے سواءکوئی خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔
6. یسوع مسیح:انسان اور خدا کے بیچ واحد درمیانی:
خدا تک پہنچنے کا راستہ ہونے کے علاوہ یسوع مسیح انسان اور خدا کے بیچ کا واحد درمیانی بھی ہے۔ 1تمیتھیس 2باب5آیت ہمیں بتاتی ہے:
1تمیتھیس2باب5آیت:
”کیونکہ خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیچ درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔ “
جیسا کہ یہ اس حوالے سے ظاہر ہے، جیسے، ”خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستوں “ کا نظریہ کلام کے حوالے سے غلط ہے، اسی طرح،”خدا اور انسان کے بیچ میں بہت سے درمیانی“ کا نظریہ بھی غلط ہے[2] ۔ جیسا کہ درج بالا واضح کرتا ہے ، خدا اور انسان کے بیچ ایک اور صرف ایک ہی درمیانی ، ابنِ آدم یسوع مسیح ہے۔ صرف اسے ہی خدا نے ہماری طرف سے درمیانی قرار دیا ہے اور صرف وہی اس کام کیلئے موزوں ہے۔
7. یسوع مسیح:زندگی کی روٹی:
یسوع مسیح کے بارے میں مزید معلومات یوحنا 6باب35آیت میں درج کی گئی ہے۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں:
یوحنا 6باب35آیت:
”یسوع نے ان سے کہا زندگی کی روٹی میں ہوں ۔ جو میرے پاس آئے وہ ہر گز بھوکا نہ ہوگا اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ ہر گز پیاسا نہ ہوگا۔ “
یوحنا 6باب47اور 48آیت بھی دوہراتی ہے کہ:
”میں تم سے سچ کہا ہوں جو ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے۔ زندگی کی روٹی میں ہوں۔ “
یسوع مسیح نے یہ وعدہ کیا تھا کہ جو کوئی اس کے پاس آتا ہے نہ کبھی بھوکا ہوگا اور نہ کبھی پیاسا ہوگا۔ اس نے کہا کہ وہ زندگی کی روٹی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کیلئے کھانا اور پانی کتنا اہم ہیں۔ تاہم، گو کہ ان کی کثرت ہمیں 70یا80سال سے زیادہ زندگی نہیں دے سکتی، لیکن وہ روٹی جو یسوع مسیح ہے، ہمیں ابدی زندگی دیتی ہے۔ کیسے؟ ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں:یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرنے سے اور ایمان لانے سے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا(رومیوں 10باب9آیت)۔ چونکہ وہ ہمیں یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ اگر ہم اس کے پاس جائیں تو نہ کبھی بھوکے ہوں گے اور نہ کبھی پیاسے ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے سے ہم وہ سب کچھ حاصل کریں گے جس کی ضرورت ہمیں اس زندگی میں ہے۔ ہمیں ابدی زندگی ملے گی اور ہماری تمام ضروریات پوری ہوں گی۔
8. یسوع مسیح: زندگی کا نور:
زندگی کی روٹی ہونے کے ساتھ ساتھ، جو کہ ہم نے ابھی دیکھا، یسوع مسیح زندگی کا نور بھی ہے، جس کی پیروی ہم کرتے ہیں۔ یوحنا کی انجیل ہمیں بتاتی ہے:
یوحنا 8باب12آیت:
”یسوع نے پھر ان سے مخاطب ہو کر کہا دنیا کا نور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔ “
یوحنا 12باب46آیت:
”میں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ “
جیسے کی ہماری زندگی کیلئے روٹی اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ہمارے اعمال او ر حرکات کیلئے روشنی کی ضرورت ہے تا کہ انہیں آسانی سے سر انجام دیا جا سکے۔ تاہم، روشنی کی ضرورت صرف اسی کیلئے نہیں ہے۔ سب سے زیادہ ضروری، زندگی میں ہمارے چال چلن کیلئے روشنی کی ضرورت ہے۔ تاکہ بخوبی اسے انجام دیا جاسکے اور ہم جانیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جیسا کہ یسوع مسیح نے خاص طور پر کہا کہ:
یوحنا 12باب35آیت:
”۔ ۔ ۔جو تاریکی میں چلتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے۔ “
جب ہم تاریکی میں چلتے ہیں تو ہم نہیں جانتے کہ ہم کہاں جاتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، گو کہ ہمارے پاﺅں کے چلنے کیلئے ، ظاہری یا مصنوعی روشنی کافی ہے، لیکن ہماری زندگی کے چال چلن کیلئے یہ ناکافی ہے۔ اس چال چلن کیلئے ہمیں کسی اور قسم کی روشنی ، زندگی کے نور، کی ضرورت ہے۔ یہ روشنی پاناممکن کیسے ہے؟یسوع مسیح کی پیروری کرنے سے۔ جیسا کہ درج بالا حوالہ جات ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم یسوع کی پیروری کرتے ہیں جو راہ، حق اور نور ہے، تو ہم تاریکی میں بھی چلیں گے تو بھی زندگی کا نور پائیں گے۔
9. یسوع مسیح: دروازہ:
یسوع مسیح کے بارے میں ایک اور خاصیت جاننے کیلئے ہم یوحنا 10باب پر جائیں گے۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں:
یوحنا 10باب 7تا 10آیت:
”پس یسوع نے ان سے پھر کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں۔ جتنے مجھ سے پہلے آئے وہ سب چور اور ڈاکو ہیں مگر بھیڑوں نے ان کی نہ سنی دروازہ میں ہوں اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پائے گا اور اندر باہر آیا جایا کرے گا اور چارا پائے گا۔ چور نہیں آتا مگر چرانے اور مار ڈالنے اور ہلاک کرنے کو۔ میں اس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔ “
یہاں یسوع خود کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم کرنے کیلئے ایک استعارہ استعمال کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے۔ اس استعارے میں یسوع خود کو ایک دروازے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس استعارے کے حوالے سے، ہم سب جانتے ہیں کہ دروازہ ایسی چیز ہے جو ہمیں اس جگہ سے دیگر مختلف جگہوں پر لے جاتا ہے جہاں ہم پہلے سے موجود ہوتے ہیںاس لئے جب یسوع مسیح خود کو کلام میں دروازے کے طور پر پیش کرتا ہے یہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جس کی بدولت ہم اس جگہ سے دیگر مختلف جگہوں میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں ہم کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی پوچھتا ہے کہ یہ جگہ کون سی ہے تو یسوع مسیح خود ہی اس کا جواب دیتا ہے، جیسا اس نے کہا: ”اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو وہ نجات پائے گا اور اندر باہر آیا جایا کرے گا اور چارا پائے گا۔ “ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اگر کوئی اس دروازے سے داخل ہو یعنی یسوع مسیح میں سے: اگر وہ اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور دل میں ایمان رکھے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا(رومیوں 10باب9آیت)تو وہ نجات پائے گا۔ اس کے علاوہ، وہ ”اندر باہر آیا جایا کرے گا“، یعنی وہ آزاد ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یسوع کے دروازے سے باہرکھڑا رہے تو وہ آزاد نہیں ہے۔ کسی غیر نجات یافتہ شخص کے حوالے سے 2کرنتھیوں 4باب3اور 4آیت کا حوالہ دیکھا جا سکتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ:
2کرنتھیوں 4باب3اور 4آیت:
”اور اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔ یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نہ پڑے۔ “
اگر آپ اندھے ہیں تو کیا آپ آزادی کیلئے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ کیا آپ اندر باہر آجا سکتے ہیں؟یقیناً نہیں۔ صرف اگر کوئی مسیح دروازے میں سے داخل ہوتا ہے تو ہی وہ شیطان کے قبضے سے آزاد ہوگا اور اسی کے پاس اصل آزادی ہے۔
10. یسوع مسیح: اچھا چرواہا:
بھیڑ کیلئے دروازہ ہونے کے ساتھ ساتھ یسوع اچھا چرواہا بھی ہے جسکی (ہمیں)یعنی بھیڑ کو ضرورت ہے۔ یوحنا 10باب11،14اور 15آیت ہمیں بتاتی ہے:
یوحنا 10باب11، 14 اور 15آیت:
” اچھا چرواہا میں ہوں ۔ اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کیلئے جان دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اچھا چرواہا میں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو جانتا ہوں ۔ اسی طرح میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے۔ اور میں بھیڑوں کیلئے اپنی جان دیتا ہو۔ “
گلّے کو محفوظ رہنے کیلئے اچھے چرواہے کی ضرورت ہے جو اس کی اچھی دیکھ بھال کرے۔ ہماری طرف آتے ہوئے، سوال یہ ہے: کیا ہماری زندگیوں کیلئے کوئی اچھا چرواہا ہے؟یعنی کوئی ایسا شخص جو ایک اچھے چرواہے کی مانن ہماری اچھی دیکھ بھال کر سکے۔ جواب ہے، جی ہاں ، ایک چرواہا ، خداوند یسوع مسیح ہے، جسکی راہنمائی اور دیکھ بھال کی ہمیں ضرورت ہے۔ جیسا کہ اس نے کہا: ”اچھا چرواہا بھیڑوں کیلئے اپنی جان دیتا ہے“، اور اس نے حقیقیتاً ہمارے لئے اپنی جان دے دی۔ افسیوں 5باب2آیت ہمین بتاتی ہے[3]:
افسیوں 5باب2آیت:
”اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خدا کی نذر کر کے قربان کیا۔ “
یسوع نے خود کو ہماری خاطر قربان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ وہ کتنا اچھا ہے؛ تاہم وہ نہ صرف اچھا چرواہا ہے بلکہ وہ طاقتور بھی ہے، جسکی راہنمائی اور دیکھ بھال میں ہم محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یو حنا 10باب27تا29آیت ہمیں بتاتی ہے:
یوحنا 10باب 27تا 29آیت:
”میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیںاور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین لا لے گا۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔ “
کوئی ہمیں ہمارے چرواہے کے ہاتھوں سے چھین نہیں سکتا، کیونکہ خدا نے ہمیں بھیڑوںکے طور پر اسے سونپا ہے، اور کوئی خدا کے ہاتھوں سے ہمیں چھین نہیں سکتا۔ اس لئے، یسوع مسیح کو ہمارا چرواہا مانتے ہوئے ہم خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں کیونکہ ہم ایک طاقت اور حفاظت میں ہیں جو کہ خدا خود ہے۔
11 اختتام:
اس کالم میں ہم نے یسوع کے بارے میں چند باتوں کا تجزیہ کیا۔ لہٰذہ ہم نے دیکھا کہ یسوع مسیح میں درج ذیل خاصیتیں ہیں:
1 خدا کا بیٹا
2 دنیا کا نجات دہندہ
3 خداوند
4 کلیسیاءکا سر
5 خدا تک پہنچنے کا واحدا راستہ
6 انسان اور خدا کے بیچ واحد درمیانی
7 زندگی کی روٹی
8 زندگی کا نور
9 دروازہ
10 اچھا چرواہا
یہ فہرست فرسودہ نہیں ہے۔ یقیناً بہت سی اور باتیں بھی ہیں جو خدا کے کلام کے مطالعہ سے کوئی بھی شخص جان سکتا ہے۔ تاہم، میری نظر میں یسوع مسیح کی ہمارے لئے اہمیت جاننے کیلئے اس کالم میں پائی جانے والی چیزیں کافی ہیں۔ جیسا پولوس نے دعا کی کہ ہم بھی”سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکیں کہ اس کی چوڑائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔ اور مسیح کی اس محبت کو جان سکیں جو جاننے سے باہر ہے(افسیوں 3باب18اور 19آیت)۔